ہے غم سے نڈھال روح مولا حسین کی |
کبھی اُجڑی تھی یہاں پہ دنیا حسین کی |
گرم آگ کا ہیولا سا بن گئی ہوا |
جلا یاد میں وجودِ صحرا حسین کی |
کی شبیر نے لہو سے سیراب کربلا |
بجھائی پیاس کیوں نہ دریا حسین کی |
بنا مرکزِ نگاہ میدانِ کربلا |
پڑی تھی یہاں پہ چشمِ بینا حسین کی |
رلاتا رہے گا یہ لہو غم حسین کا |
ہمیشہ رہے گی یاد زندہ حسین کی |
پسِ پردہ تھا یہ کوفیوں کا ارادہ کیا |
فقط جانتا ہوں میں تمنا حسین کی |
کہ نیزے پہ لگ رہا تھا سَر اور بھی حسین |
سُنا ہے کہ یوں ادا تھی گویا حسین کی |
ہے سکتہ میں موت بھی مقامِ حسین پر |
گئی نزع مرگ کو بھی تڑپا حسین کی |
مری چشمِ غم زدہ کی تنویر چھن گئی |
کہ خیرہ جو کر گئی ہے ضیاء حسین کی |
تنویر روانہ ،،،،سرگودھا پاکستان |
معلومات