دریائے بے خودی میں اترنے نہیں دیا |
آنکھوں میں مجھ کو ڈوب کے مرنے نہیں دیا |
لذت کے اعتبار سے غم نے دیا مزہ |
جو دردِ قلب اور جگر نے نہیں دیا |
سینے پہ زخم مَیں نے بہت کھائے ہیں مگر |
ساطور دل کے پار گزرنے نہیں دیا |
میں آستان بوس ہوا کرتا تھا کبھی |
آسودگانِ خاک پہ گرنے نہیں دیا |
آشیر باد کہتی رہی زندگی مجھے |
جینے نہیں دیا کبھی مرنے نہیں دیا |
چھوڑا نہیں کہیں کا نشیب و فراز نے |
ایسے ڈبویا ہے کہ ابھرنے نہیں دیا |
اسلوبِ حسن کو ہے اَدا بندی کا ہنر |
زلفِ پریشاں کو جو سَنورنے نہیں دیا |
اَذفَر اَدِیمِ زندگی اِذعانِ اَدعِیہ |
اَربابِ اقتدار بشر نے نہیں دیا |
آشفتہ حال درد کا آمیختہ ہُوا |
افسوس نے جو زخموں کو بھرنے نہیں دیا |
تنویر ریزہ ریزہ بھی ثابت قدم رہا |
ہاں ٹوٹ کر بھی خود کو بکھرنے نہیں دیا |
تنویر روانہ سرگودھا پاکستان |
معلومات