| حرفِ دعا ہے دل میں مگر لَب کُشا نہیں |
| لب تھرتھرا رہے ہیں کہ نکلی صدا نہیں |
| گزری ہے عمر ساری رکوع و قیام میں |
| سجدہ نمازِ عشق میں ہوتا اَدا نہیں |
| رسوائی کا سبب تھا کہ خاموش چل دِیے |
| کہنا تھا جو زمانے سے کچھ بھی کہا نہیں |
| دیکھا قدم قدم پہ یہاں خطرہ موت کا |
| دیکھی نہیں حیات کہ جس کو فنا نہیں |
| جس نے مجھے بنایا حقیقی ہے وہ خدا |
| مَیں نے جسے تراشا وہ میرا خدا نہیں |
| دنیا بتانِ آذری کا اک شِوالا ہے |
| ہاں بت شکن خلیل سا کوئی رہا نہیں |
| پرہیز گار لوگ کہ ملتے ہیں اب کہاں |
| اہلِ عمل نہیں ہے کوئی پارسا نہیں |
| نیت ہے اک خطا کی خطا کر رہا ہوں مَیں |
| اوجھل رہوں نظر سے کہ ایسی جگہ نہیں |
| چُپکے سے پی رہا ہوں کہ دنیا نہ دیکھ لے |
| کیسے یقیں کروں گا کوئی دیکھتا نہیں |
| کافر کے دل میں بارہا دیکھا ہے جھانک کر |
| موجود ہے خدا وہاں خوفِ خدا نہیں |
| چرچا ہے بد کلامی کا اور بد مزاجی کا |
| مخلص نہیں زمانہ کوئی بے ریا نہیں |
| اس دور میں بشر کی خلا پر بھی ہے نظر |
| یہ اور بات ہے کہ جو تابع ہوا نہیں |
| تنویر اُس جہاں میں ٹھکانہ تلاش کر |
| جینے کا اس جہاں میں رہا کچھ مزہ نہیں |
| تنویرروانہ |
معلومات