دورِ بچپن کا کیا زمانہ تھا
شادمانی کا اک خزانہ تھا
عمرِ رفتہ رواں رہی آخر
زندگی کا فریب کھانا تھا
وقت بدلا تو کیا نہیں بدلا
جو حقیقت تھی سو فسانہ تھا
یار اپنے نہیں رہے اپنے
جن سے رشتہ مرا پرانا تھا
ساتھ بھاتا تھا اُن کو شاہوں کا
حال اپنا تو مفلسانہ تھا
میں فقط عشق کا مجاوِر ہوں
کب کہاں میرا آستانہ تھا
وہ سرِ عام کس طرح ملتا
آمنے سامنے زمانہ تھا
بس تخیل کی آس تھی ورنہ
یہ تعلق بھی غائبانہ تھا
بے وفائی کا کیا گلہ کرتا
ہاں مرا عشق بھی یگانہ تھا
کاش دیدار کی نہ ضد کرتا
کیا خبر تھی کہ ہوش جانا تھا
جام پینا تو اک بہانہ تھا
در شنا غم ترا بھلانا تھا
ساتھ آہوں کے چل بَسا تنویر
دردِ دل جب ہُوا روانہ تھا
تنویرروانہ

0
339