| ڈھونڈتے کیا ہو دارِ فانی میں |
| ہُو کا عالم ہے لامکانی میں |
| قرب حاصل ہے مجھ کو یزداں کا |
| دل کو رکھا ہے ترجمانی میں |
| آج تک تجھ سے کچھ نہیں مانگا |
| کر عطا دید ارمغانی میں |
| اپنی شَہ رگ میں دیکھ آیا ہوں |
| جس نے ٹالا تھا لَن تَرَانی میں |
| جس کا مَیں منتظر تھا مدت سے |
| مِل گیا ہے وہ زندگانی میں |
| تُو ہے عنواں مری کہانی کا |
| مَیں کہاں ہوں تری کہانی میں |
| آگ گلزار ہو گئی کیسے |
| ہے برودت شَرَر فشانی میں |
| دریا لگتا ہے کربلا جیسا |
| پیاس دیکھی ہے آج پانی میں |
| وجد تنویر جب ہوا طاری |
| خود کو پایا ہے پھر گیانی میں |
| تنویرروانہ |
معلومات