یہ کہا کس نے تجھ سے بچھڑ جائیں گے
جب ترا ساتھ چھوٹا تو مر جائیں گے
رفتہ رفتہ کہیں ہم گزر جائیں گے
ایک دن ہم لحد میں اتر جائیں گے
تب خدا جانے ہو گا مرے ساتھ کیا
جب لحد میں مجھے چھوڑ کر جائیں گے
اجنبی دیس میں ہم کدھر جائیں گے
بھاگ کر ہم اِدھر سے اُدھر جائیں گے
راستے میں مسافر گئے ہیں بھٹک
کیسے ممکن کہ گھر لوٹ کر جائیں گے
درد زخموں کا چہرہ کریدے گا پھر
دل چھلک جائے گا غم بکھر جائیں گے
قیس کے بھیس میں جب نظر آؤں گا
میرے حالات سے لوگ ڈر جائیں گے
وقت سے کوئی اچھا مسیحا نہیں
زخم گہرے ہیں تنویر بھر جائیں گے
تنویرروانہ

0
218