کی تمنا جو زندگانی میں
زندگی لُٹ گئی جوانی میں
خود کو برباد کر دیا ہم نے
تیری چاہت کی پاسبانی میں
غور سے سنیے داستاں میری
غم ہی غم ہے مری کہانی میں
روز آنسو بہائے رکھتا ہوں
کر یقیں گھر ہے میرا پانی میں
عشق نےکچھ نہیں دیا مجھ کو
کٹ گئی زندگی غلامی میں
تیز جذبات کا بہاؤ تھا
جانے کیا کہہ گئے روانی میں
دل ہےتنویر درد کا دریا
ڈوب کر دیکھ خوں فشانی میں
تنویر روانہ ،،،،سرگودھا پاکستان

207