| اِک قافلہ ٹھہرا تھا کربل کے وِرانے میں |
| سب لوگ جِسے کرتے ہیں یاد زمانے میں |
| دجلہ کے کنارے پر شبیر کے تھے خیمے |
| سرگرم تھے قاتل بھی وہاں خون بہانے میں |
| حرمت کا بھرم رکھنا پردیس میں اے مولا |
| سید کا بسیرا ہے کربل کے وِرانے میں |
| توحید کی خاطر اپنی جان فدا کر دی |
| چھوڑی نہ کسر کوئی اسلام بچانے میں |
| شبیر کے ہاتھوں میں ہے ننھا سا علی اصغر |
| کچھ وقفہ تو رکھ اے حرمل تیر چلانے میں |
| اولادِ علی کو پانی کون پلائے گا |
| غازی کا ہے مشکیزہ غاصب کے نشانے میں |
| پانی کے لئے تَرسی ہے کرب و بلا جیسے |
| لگ جائیں گی صدیاں ہائے پیاس بجھانے میں |
| شبیر کی مجلس میں عزاداروں کا ماتم ہے |
| مصروف جہاں سارا ہے سوگ منانے میں |
| ہے ضبط نہ خواہش میں نہ رشتوں کی شناخت ہے |
| عالم ہے جہالت کا کافر کے گھرانے میں |
| کچھ آہیں ہیں کچھ آنسو کچھ اُکھڑی ہیں سانسیں |
| جیون کا یہ ساماں ملا ہستی کے خزانے میں |
| جو ظلم و ستم انسان کے ساتھ ہُوا تنویر |
| دَم پھر بھی ہے ٹھہرا ہُوا ہستی کے ٹھکانے میں |
| تنویر روانہ سرگودھا |
معلومات