| برسوں کی تشنگی ہے کہ پل میں بجھا نہیں |
| مَیں ہوش میں نہ آ سکوں اتنا پلا نہیں |
| کیوں چھوڑ دے گا ساقی مرے حال پر مجھے |
| یہ پیاس بے سبب نہیں بے ضابطہ نہیں |
| خالی سہی مگر ابھی رہنے دے سامنے |
| جلدی بھی کیا ہے اتنی کہ ساغر اٹھا نہیں |
| رکھوں گا زندگانی کی خوشیوں کو اب کہاں |
| دل غم سے بھر گیا ہے کہ خالی جگہ نہیں |
| اس درد کی بھی ہو گی یقینا کوئی دوا |
| یہ کس نے کہہ دیا ہے کہ غم کی دوا نہیں |
| بدلا جو وقت میرا مقدر بدل گیا |
| یہ وقت ایک جیسا تو رہتا سدا نہیں |
| خانہ بدوش کر دیا غربت نے اس طرح |
| خلقت امیرِ شہر کو دیتی دعا نہیں |
| مغرور کا غرور سلامت ہے اس قدر |
| گردن تو کَٹ گئی ہے مگر سَر جُھکا نہیں |
| تنہا سہی مگر کوئی غمگین کیوں پِھرے |
| ہے رب کا آسرا جسے بے آسرا نہیں |
| اپنا وجود مَیں خودی کو سونپ دیتا ہوں |
| سب لوگ بے وفا ہیں کوئی با وفا نہیں |
| تنویر کیسے مان لُوں باتیں عدم یقیں |
| رَب کے سوا کسی پہ بھروسہ رہا نہیں |
| تنویرروانہ |
معلومات