کیا ہے جرم انساں نے تمنا کی قیادت میں |
ازل سے آگئی دنیا گناہوں کی حراست میں |
بڑی مدت سے رہتا ہوں غریبی کی شباہت میں |
خودی کو سونپ رکھا ہے غلامی کی کفالت میں |
یہاں تذلیل ہوتی ہے بنی آدم کے پیکر کی |
ملے گا کیا زمانے کو ملامت میں ضلالت میں |
کبھی آزاد کر دے گا الہی جو غلامی سے |
کہ خود مختار ہو جاؤں گا ظالم کی ریاست میں |
غریبوں کو ہے ناممکن یہاں انصاف کا ملنا |
نظامِ عدل قاصر ہے ابھی دورِ خلافت میں |
سنو لوگو مخاطب ہوں زمانے کے خداؤں سے |
تسلی مل گئی مجھ کو فقط رب کی عبادت میں |
ملا کچھ بھی نہیں مجھ کو ندامت کے سِوا آخر |
اُٹھایا ہے بہت نقصاں محبت کی تجارت میں |
کیا ہے جرمِ الفت اک بغاوت کی جسارت میں |
ملی ہے زندگی کی یہ سزا مجھ کو وراثت میں |
نہ مرنے کا ارادہ ہے نہ جینے کی تمنا ہے |
بھلا مَیں کیا کہوں تنویر امرت کی حمایت میں |
تنویرروانہ |
معلومات