کیا ہے جرم انساں نے تمنا کی قیادت میں
ازل سے آگئی دنیا گناہوں کی حراست میں
بڑی مدت سے رہتا ہوں غریبی کی شباہت میں
خودی کو سونپ رکھا ہے غلامی کی کفالت میں
یہاں تذلیل ہوتی ہے بنی آدم کے پیکر کی
ملے گا کیا زمانے کو ملامت میں ضلالت میں
کبھی آزاد کر دے گا الہی جو غلامی سے
کہ خود مختار ہو جاؤں گا ظالم کی ریاست میں
غریبوں کو ہے ناممکن یہاں انصاف کا ملنا
نظامِ عدل قاصر ہے ابھی دورِ خلافت میں
سنو لوگو مخاطب ہوں زمانے کے خداؤں سے
تسلی مل گئی مجھ کو فقط رب کی عبادت میں
ملا کچھ بھی نہیں مجھ کو ندامت کے سِوا آخر
اُٹھایا ہے بہت نقصاں محبت کی تجارت میں
کیا ہے جرمِ الفت اک بغاوت کی جسارت میں
ملی ہے زندگی کی یہ سزا مجھ کو وراثت میں
نہ مرنے کا ارادہ ہے نہ جینے کی تمنا ہے
بھلا مَیں کیا کہوں تنویر امرت کی حمایت میں
تنویرروانہ

176