| گھٹائیں گفتگو جب آسماں سے کرنے لگیں |
| زمیں کی گود میں بارش کی بوندیں گرنے لگیں |
| سیاہ پوش جہاں بامِ گردوں سے ہو گیا |
| اُسانا بدلیاں آکاش سے اترنے لگیں |
| تمام دن کہ اماوس کی رات جیسا رہا |
| جہاں کی رونقیں تاریکیوں سے ڈرنے لگیں |
| گرج چمک سے زمانہ اداس ہونے لگا |
| مقامِ طور سے پھر بجلیاں گزرنے لگیں |
| نشاط کار ہے بالیدگی یہ اخضری کی |
| کہ پردہ خاک سے نوخیزیاں ابھرنے لگیں |
| بہار روپِ ظواہر پہ مسکرانے لگی |
| چہار سُو زمیں پر وادیاں نکھرنے لگیں |
| زمانہ مجھ کو شرابی شرابی کہنے لگا |
| نگاہِ یار سے جب مستیاں بکھرنے لگی |
| لبوں پہ گونجتی تھیں العطش صدائیں کبھی |
| سراب ہو گئیں اِمطار سے ٹھٹھرنے لگیں |
| نوائے وقت کہ تنویر خوشگوار ہوا |
| ہزاروں خواہشیں دل کا طواف کرنے لگیں |
| تنویر روانہ ،،،،سرگودھا پاکستان |
معلومات