| جب کبھی موسمِ بہار آیا |
| اُجڑے گلشن پہ پھر نکھار آیا |
| شکل و صورت وہی رہی اپنی |
| اِسْتِحالَہ کبھی کبھار آیا |
| مجھ کو حالات نے بدل ڈالا |
| کس لئے خود کو تُو سنوار آیا |
| اِستِمالت پہ یار نے جھڑکا |
| پھر اَساول ہے اشکبار آیا |
| آنسو اشکِ کباب ہیں لیکن |
| کب سحر خیزی کا شعار آیا |
| اِستِراحت کی اِستِعانت ہے |
| زندگی بھر نہیں قرار آیا |
| تجھ کو تنویر مل گئی منزل |
| میرے حصے میں انتظار آیا |
| تنویرروانہ |
معلومات