Circle Image

Sanjay Kumar Rahgir

@Rahgir0143

ماضی کی یادوں سے دل بھرا نہیں ہے
عشق زندہ ہے اب تک مرا نہیں ہے
وہ خدا خوف دے کر ڈرا رہا ہے
پر مرا دل ابھی تک ڈرا نہیں ہے
ہے محبت یہ معلوم ہے اسے بھی
پر ابھی عشق میں وہ پڑا نہیں ہے

0
65
ریت پر لکھا مرا نام مٹاتی ہو گی
اب بھی کہہ کر مجھے اپنا وہ بلاتی ہو گی
ایک تصویر لگا رکھی تھی گھر میں اس نے
کیا اسے دیکھ کے خود کو وہ رلاتی ہو گی
اس کو عادت تھی مرے کاندھے پہ سر رکھنے کی
اب نجانے کہاں سر اپنا ٹکاتی ہو گی

0
44
دسمبر کی سردی میں یہ ہجر کی شب
تری یاد ایسے میں کیوں کر نہ آئے
ہزاروں ہے قصّے جدائی کے جاناں
مگر یاد قربت کا قصہ نہیں ہے
زمانہ ہمیں یاد کیوں کر کرے گا
کوئی کام اچھا نہ ہم نے کیا ہے

0
56
اُس کے ہاتھوں میں کنگن لگا رکھا ہے
ہم نے ظالم کو اپنا بنا رکھا ہے
ایک مدّت سے اُس کو نظر میں رکھا
اب اُسے دل میں اپنے بسا رکھا ہے
چاند سا رُخ ہے اس کا نظر نہ لگے
اِس لیے اُس کو دل میں چُھپا رکھا ہے

0
59
خارزاروں پہ مجھ کو چلانا نہیں
عشق پھر سے مرا آزمانا نہیں
درد دینے کی تم کو اگر چاہ ہو
زخم دینا مجھے پر جلانا نہیں
جب کبھی شہر آؤ تو ملنا مجھے
تم کبھی کوئی کرنا بہانہ نہیں

0
46
پیاسے لبوں کی پیاس بجھانے والے
تو لوٹ کے آجا مجھے چاھنے والے
آ دیکھ ذرا اشک مری آنکھوں کے
پاگل مجھے چاہت میں بنانے والے

0
51
رخ سے ذرا اپنے یہ پردہ ہٹا لو صنم
اب ذرا دھیرے سے یہ پلکیں اٹھا لو صنم
سارے جہاں میں نہیں تم سا حسیں کوئی اور
بات خوشی سے مری سب کو سنا لو صنم
چاند ستارے تمہیں دیکھیں بڑے غور سے
جلوے اداؤں کے ان پر نہ گرا لو صنم

0
89
اس کے ہی ہجر نے رلایا بہت
جس کو شدت سے ہم نے چاہا بہت
ایک مدت سے آزماتے رہے
بعد اس کے مجھے ستایا بہت

53
ریت پر لکھ لیا نام کس نے وفا
مٹ گیا پل میں وہ ہو گیا سب فنا
ہم ترستے رہے قربتوں کو مگر
پر وہ ہوتے رہے روز مجھ سے خفا

48
کتنی مشکل سے ماں ہے ملی نوکری
نوکری فوج کی فوج کی نوکری
تم نے چاہا تھا مجھ کو ملے نوکری
ہاں ملے نوکری فوج کی نوکری
خواب تم نے جو دیکھے وہ پورے ہوئے
مجھ پہ وردی سجے گی ملی نوکری

103
زندہ ہوں کہاں جان باقی ہے
اب کہاں وہ پہچان باقی ہے
ذات پات کے نام پر ہی کیا
دیش کا ابھیمان باقی ہے
کیوں یہ لب ہیں خاموش بیٹھے اب
اِن میں اب بھی مسکان باقی ہے

62
تنکا تنکا جوڑ کر آشیاں بناتا ہوں
ہر کسی کی بد نظر سے اُسے بچاتا ہوں
میلوں اُڑتا ہوں کہیں دور دانہ پانی کو
بھوکا رہ کے خود میں ان بچوں کو کھلاتا ہوں
ہوتی جب کبھی ہے بارش میں بھیگ جاتا ہوں
پھیلا کے میں اپنے پر اپنا گھر بچاتا ہوں

0
22
280
رنگوں کا تہوار ہے ہولی
خوشیوں کی بوچھار ہے ہولی
گھر گھر میں جو رنگ یہ لائے
ہم سب پر اُپکار ہے ہولی
رشتوں میں یہ دوری مٹائے
ایسا ہی تہوار ہے ہولی

105
کیا دھرم اور کیا ذات کی فکر
ہم ہیں پنچھی ہمیں بس ساتھ کی فکر
اُڑتے ہیں جب بھی فلک پر کہیں دور
پھر نہیں رہتی کسی بات کی فکر
سرحدیں ہم کو کبھی باندھ نہ پائیں
شام ڈھلتے نہ رہی رات کی فِکر

70
نا دھرم کا پتہ نا ذات کی فکر
ہم ہیں پنچھی ہمیں بس ساتھ کی فِکر
اُڑتے ہیں آسماں میں ہو کے بے فِکر
اِس کی نا اُس کی کسی بات کی فِکر
سرحدیں ہم کو کبھی بانٹ نہ پائیں
شام ڈھلتے رہی نا رات کی فِکر

0
94
موت کا سب سفر تنہا ہی کرنا ہے
دُنیا میں جو بھی آیا اُس کو مرنا ہے
چھوڑ دو اب یہاں یہ ظلم کرنا تم
سب کیا اپنا آخر میں تو بھرنا ہے
چار دن کی یہاں یہ زندگی ہے اب
موت کا پھر مسافر سب کو بننا ہے

134
موت سے پہلے  کا منظر دیکھا ہے
آج پہلی بار یہ ڈر دیکھا ہے
برسوں سے تھا جس کا یہ دل منتظر
اُس فرشتے کا میں نے گھر دیکھا ہے
ہر کوئی ہے اک عجب سے خوف میں
موت کا جیسے سمندر دیکھا ہے

68
ذرا رُخ سے اپنے یہ زُلفیں ہٹا دو
مری جان مجھ کو یہ چہرہ دکھا دو
نشیلی ہیں آنکھیں نشیلے یہ لب ہیں
مجھے بھی ذرا دید اِن کے کرا دو
غضب کی ہے شوخی تری ہر ادا میں
ہمیں بھی یہ جلوے زرا تم دکھا دو

100
وقت رخصت کہیں تارے کہیں جگنو آئے

63
ہے سمندر اگر عشق تیرا یہاں
ہم سفینہ اے چاہت لیے پھر رہے
ہے ذرا سی طلب تم پلا دو مجھے
ہم بھی مے کی یہ لت ہیں لیے پھر رہے

63
تم نظر سے نظر اب ملا دو صنم
عشق کے پھول دل میں کھلا دو صنم
تم غزل ہو مری شاعری بھی ہو تم
لفظ پھر سے نئے کچھ سکھا دو صنم
ہیں کتابوں میں خط جو چھپا کر رکھے
وہ محبت کے خط تم پڑھا دو صنم

75
کچھ بھی نہیں یہ زندگی تیرے بنا
آنکھوں میں رہتی ہے نمی تیرے بنا
خاموش ہوں مدہوش ہوں میں ہر گھڑی
کھلتی ہے اب تیری کمی تیرے بنا

114
یہ محبت یہ چاہت نشہ ہے نشہ
اِس نشے میں ہے اب تو مزا ہی بڑا
گر میں جاؤں تو جاؤں کہاں اے خُدا
اُس کی آنکھوں سے ہو کے ہے رستہ مرا
اُس کی یادوں سے نکلوں تو جاؤں کہاں
اُس کی آنکھوں میں ہے آشیانہ مرا

89
ریت کے ٹیلوں پر مکان نہیں
عشق کے اور امتحان نہیں
کب تلک پورے ہوں گے خواب مرے
کیوں خدا مجھ پہ مہربان نہیں

71
ماں تو ماں ہوتی ہے صاحب
ہو غم یہ ہو خوشی کوئی
کوئی دکھ درد ہو یہ پھر
ہنسی وہ ساتھ ہوتی ہے
ماں تو ماں ہوتی ہے صاحب
ہماری ہر خوشی میں ہے

72
جس حال میں رکھےخُدا خوش رہتا ہوں میں  ماں
اُس کے دیے یہ درد بھی اب سہتا ہوں میں ماں
سیلاب ہیں یہ اشک مرے روکتے نہیں
بس ساتھ ساتھ اَشکوں کے ہی بہتا ہوں میں ماں
خاموش رہتا ہوں بھری محفل میں آج کل
پر حالِ دل کسی سے نہیں کہتا ہوں میں ماں

98
اُس کی آنکھوں میں کچھ تو نشہ ہو گا
بھر بھر کےجام جو پلایا ہو گا
اب تو مدہوش ہے یہ ساری محفل
اُس نے کچھ رنگ تو جمایا ہو گا

76
عشق میں جھوٹ سُنانا نہیں آیا مجھ کو
بھول کو اپنی چھپانا نہیں آیا مجھ کو
تھا گُزر اُس کا مری راہ سے ہو کر لیکن
ہے محبت یہ بتانا نہیں آیا مجھ کو

0
82
میں مسلسل تری یادوں کا سفر کرتا ہوں
صبح اور شام ترا خود سے ذکر کرتا ہوں
رات بھر روتا ہوں تنہائی کے عالم میں اب
اور اُجالے یہ تری یادِ نظر کرتا ہوں

112
میرے دیش کا دامن تار تار ہے پھر سے
جس کو بھی میں دیکھوں وہ شرم سار ہے پھر سے
جھک گئی ہیں آنکھیں ہر شخص کی یہاں لیکن
دل میں اِن کے غصّہ اب بے شمار ہے پھر سے
غم ہے غصّہ ہے اور ہے خوف بھی یہاں سب میں
جینے سے یہاں ہر کوئی بے زار ہے پھر سے

75
پھول مرجھا رہے ہیں چمن کے یہاں
تم چلے آؤ اب تو وہاں سے یہاں
اب تو پتھرا گئی ہیں یہ آنکھیں مری
اشک آنکھوں کے سوکھے ہیں سارے یہاں
رات دن اب تو میرے گُزرتے نہیں
شام تنہا یہ تم کو پکارے یہاں

97
یہ حُُسن کے چرچے یہ شان و شوکت
بس نام کے ہیں سب کے سب یہاں پر
وہ چھین لے گا سب یہاں یہ اک دن
پھر ہے ضرورت ان کی کب کہاں پر

84
وہ ریت پر قدموں کے نشان باقی ہیں
میں زندہ ہوں ابھی تک مجھ میں جان باقی ہے
یوں کب تلک مجھے خاموش تم رکھو گے اب
ابھی تو بولنے کو یہ زبان باقی ہے

104
روک لو اُس کو اک بار پھر سے
چھوٹ جائے گا وہ یار پھر سے
اُن سے آنکھیں ملاؤں تو کیسے
ہو نہ جاؤں گرفتار پھر سے
روٹھ جائے نہ محبوب میرا
کر رہا ہوں میں اظہار پھر سے

88
اُس کے جانے کا ہمیشہ غم رہا
ہجر میں اُس کے یہ دامن نم رہا
عشق اُس کو بھی ہو گا ہم سے کبھی
آج تک اِس بات کا برہم رہا
گر میں لکھتا بھی تو خط کس نام سے
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا

106
اُس سے آنکھیں ملا رہا ہوں پھر سے
چاہت کے گُل کھلا رہا ہوں پھر سے
مجھ کو مدہوش کر رہی ہیں باتیں
باتوں سے دل بھلا رہا ہوں پھر سے

76
اُس کے گھر کے چکر لگا رہا ہوں پھر سے
روٹھی چاہت کو میں منا رہا ہوں پھر سے
کتنا ظالم ہے کی وہ سُنتا نہیں میری
تب بھی اُس کے ناز اُٹھا رہا ہوں پھر سے
کیوں کر ہوں مجبور یہ جان نہیں پایا
بس آنکھوں سے دھول ہٹا رہا ہوں پھر سے

142
عورت کو کھیلنے کا سامان نہ سمجھا جائے
اِس میں بھی دل ہے اِسے بے جان نہ سمجھا جائے
گھر کی ہر ایک خوشی میں ہو خوشی اس کی بھی اب
اس کو اپنے ہی یہاں مہمان نہ سمجھا جائے

79
محبت محبت محبت ہے تم سے
مری جان کتنی محبت ہے تم سے
جہاں بھی میں دیکھوں ہے تو ہی نظر میں
مری زندگی بس محبت ہے تم سے
لبوں پر ترا نام رہتا ہے ہر پل
ہے چاہت تمہاری محبت ہے تم سے

92
میں تیری اُلفت کے چراغوں کو جلا کے رکھوں گا
یہ عشق تا عمر میں دل میں ہی چھپا کے رکھوں گا
میں کب سے خاموش ہوں کچھ نہیں کہا اب بھی میں نے
میں ایسے ہی راز یہاں یہ سب دُبا کے رکھوں گا

171
وقت کے ساتھ بدلنا سیکھو
گِر کے خود ہی سے سنبھلنا سیکھو
کون آئے گا بچانے تمہیں
بھیڑ سے خود ہی نکلنا سیکھو
دل ہے پتھر یہ تمہارا کیوں کر
موم کی طرح پگھلنا سیکھو

4
150
تلاش تھی جس کی وہ ملا نہیں
مجھےکسی سے اس کا گلہ نہیں
ہے کشمکش میرے دل میں اب تلک
وہ پھول چاہت کا کیوں کھلا نہیں
جہاں میں جس اور دیکھوں تو ہی تو ہے
خیال تیرا دل سے گیا نہیں

98
کس کی باتوں کا اثر مجھ پر ہوا ہے
ہوش اپنا میں گوا بیٹھا ہوں اب تو
روز در پر اس کے بن کر اب سوالی
عشق کی فریاد لے جاتا ہوں اب تو

95
یہ زندگی کے کھیل بھی نرالے ہیں
یہاں تو جھوٹ کے ہی بول بالے ہیں
نہیں نصیب میرے دل خوشی یہاں
یہاں پہ لوگوں نے تو غم ہی پالے ہیں
کسی پہ کیسے میں کروں بھروسہ اب
یہاں تو سب نے خود پہ پردے ڈالے ہیں

105