ماں تو ماں ہوتی ہے صاحب
ہو غم یہ ہو خوشی کوئی
کوئی دکھ درد ہو یہ پھر
ہنسی وہ ساتھ ہوتی ہے
ماں تو ماں ہوتی ہے صاحب
ہماری ہر خوشی میں ہے
خوشی اُس کی بھی اور غم میں
دُکھی ہوتی ہے ماں یارو
ہماری فکر میں جلتی
سلگتی رہتی ہے اکثر
ماں تو ماں ہوتی ہے صاحب
بھلا کر درد وہ سارے
ہنسی میں ہی اُڑا دیتی
ہے بچوں میں ہی جاں اُس کی
بہت دُکھ درد سہتی ہے
کھبی بھی کچھ نہ کہتی ہے
ماں تو ماں ہوتی ہے صاحب
سبھی پوچھے کمانے کا
مگر ماں پوچھے کھانے کا
سبھی مانگے ہیں کچھ نا کچھ
مگر ماں بس دُعا مانگے
فرشتہ ہے یہ ماں یارو
ہے جنت اِس کے پاؤں میں
اِسے پوجا کرو تم سب
خُدا کا نام ہی ماں ہے
یہ ماں رب ہی تو ہے صاحب
سنجے کمار راہگیر

83