یہ زندگی کے کھیل بھی نرالے ہیں
یہاں تو جھوٹ کے ہی بول بالے ہیں
نہیں نصیب میرے دل خوشی یہاں
یہاں پہ لوگوں نے تو غم ہی پالے ہیں
کسی پہ کیسے میں کروں بھروسہ اب
یہاں تو سب نے خود پہ پردے ڈالے ہیں
ہے دل میں درد اور آنکھوں میں نمی
مرے تو دن بھی رات جیسے کالے ہیں
جہاں میں ہوتی روز اب برائی ہے
لگے زباں پہ سب کے کیوں یہ تالے ہیں
بہت کھٹن ہے راہ گیر اب گزر
کہاں نصیب مجھ کو اب اُجالے ہیں
سنجے کمار راہگیر

125