موت کا سب سفر تنہا ہی کرنا ہے
دُنیا میں جو بھی آیا اُس کو مرنا ہے
چھوڑ دو اب یہاں یہ ظلم کرنا تم
سب کیا اپنا آخر میں تو بھرنا ہے
چار دن کی یہاں یہ زندگی ہے اب
موت کا پھر مسافر سب کو بننا ہے
روز میں دیکھتا ہوں خواب جینے کے
پر یہاں زندگی سے روز لڑنا ہے
موت کا خوف ہے راگیر دل میں کیوں
اب اِسی موت کو پھر بس میں کرنا ہے

163