موت سے پہلے  کا منظر دیکھا ہے
آج پہلی بار یہ ڈر دیکھا ہے
برسوں سے تھا جس کا یہ دل منتظر
اُس فرشتے کا میں نے گھر دیکھا ہے
ہر کوئی ہے اک عجب سے خوف میں
موت کا جیسے سمندر دیکھا ہے
جھکنا جس نے سیکھا نا تھا اے خُدا
اُس کا چوکھٹ پر تری سر دیکھا ہے
بات اِس محفل میں اُس کی کیا کروں
اُس کے لفظوں میں ہی شاعر دیکھا ہے
ذکر اب راگیر اُس کا  کیا کروں
ساتھ چلتے اُس کے لشکر دیکھا ہے
سنجے کمار راہگیر

79