اُس کے جانے کا ہمیشہ غم رہا
ہجر میں اُس کے یہ دامن نم رہا
عشق اُس کو بھی ہو گا ہم سے کبھی
آج تک اِس بات کا برہم رہا
گر میں لکھتا بھی تو خط کس نام سے
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
خود سے بڑھ کر تھی محبت اُس سے پر
عشق اُس کو کیوں ہمیشہ کم رہا
چھوڑ کر راگیر جب سے وہ گیا
تب سے اِس دل میں مرے ماتم رہا

122