پھول مرجھا رہے ہیں چمن کے یہاں
تم چلے آؤ اب تو وہاں سے یہاں
اب تو پتھرا گئی ہیں یہ آنکھیں مری
اشک آنکھوں کے سوکھے ہیں سارے یہاں
رات دن اب تو میرے گُزرتے نہیں
شام تنہا یہ تم کو پکارے یہاں
دیش تم کو بُلائے ہے ہر دن یہاں
چوم لو اِس کی مٹّی کو پھر سے یہاں
حالِ دل میں سُناؤں تو کس کو صنم
یاد ہر پل تری اب رُلائے یہاں
بات را ہگیر دل کی کروں بھی تو کیا
عشق چاہت یہ دل کو جلائے یہاں
سنجے کمار راہگیر

98