تلاش تھی جس کی وہ ملا نہیں
مجھےکسی سے اس کا گلہ نہیں
ہے کشمکش میرے دل میں اب تلک
وہ پھول چاہت کا کیوں کھلا نہیں
جہاں میں جس اور دیکھوں تو ہی تو ہے
خیال تیرا دل سے گیا نہیں
ہے زخم دل کا اب تک ہرا مرے
یہ زخم اُلفت کا کیوں بھرا نہیں
نہیں سکوں اِن آنکھوں کو اب تلک
وہ شخص اِن کو اب تک دِکھا نہیں
اُداس ہے دل راگیر پھر سے اب
وہ شخص جو میرا تھا مرا نہیں

115