Circle Image

ناصح احمدؔ خرام

@Khiram

احمدؔ یہ جام فنا ملتا نہی ہے سب کو. @ahmad_khiram

سراپا نور ہے روئے محمد
چلا ہے دل مرا سوئے محمد
نہیں ہے یہ نہیں دکھتا جو ہے چاند
نظر آتا ہے ابروئے محمد
قیامت میں اُٹھا ہے ہاتھ دیکھو
شفاعت کرنے بازوئے محمد

1
17
ذرا دیکھو یہاں ہے اِک زمانہ
جہاں برسا ہے رحمت کا خزانہ
سبھی کی آنکھ میں آنسو ہیں دیکھو
بھرا ہے درد سے میرا فسانہ
ترے بیمار نے پائی شہادت
تو استقبال کرنا والہانہ

0
3
یہ دل ہے ہمارا تمہارا نہیں ہے
فلک پر چمکتا ستارا نہیں ہے
ہے خوش قسمتی کے پکارا نہیں ہے
یہ عادت ہے اُس کی اشارہ نہیں ہے
محبت کی بازی ہے بے فکر کھیلو
بہت فائدہ ہے خسارہ نہیں ہے

0
4
ذرا بھر ڈر رہی ہو جس کسی آہوں سے اے جاناں
سنائی دے رہی زخمی کے یہ زخموں سے اے جاناں
کیا کر یونہی شکوے تو نہ دل میں رکھ کوئی بھی بات
محبت بڑھتی جائے گی ترے شکوؤں سے اے جاناں
ترے لفظوں میں تاثیرِ دوا ہے پھونک دے ظالم
بچا لو مرنے والے اپنے کو باتوں سے اے جاناں

0
3
یہ کششِ حُسنِ بتاں تم نا سمجھو گے
عشق کے یہ سود و زیاں تم نا سمجھو گے
ہے نہیں نام و نشاں نا مثل کوئی ہے یہاں
کس پہ فریفتہ ہے جہاں تم نا سمجھو گے
یہ انگڑائیاں زلفوں کی کر رہی حال بیاں
پر وہ رات کو تھے کہاں تم نا سمجھو گے

0
3
سلسلہ ہے نور کا
سایہ جیسے طور کا
یہ نہیں ساقی شراب
پانی ہے انگور کا
موت کی تعریف یہ
کچھ سفر ہے دور کا

0
4
وفا داروں میں دیکھو بس وفا ہے
حُسن والوں تمہارے پاس کیا ہے
خدا سنتا ہے میری ساری عرضیں
وہ جھٹلاتا ہے جو تیرا خدا ہے
زمانے بھر کی خوشیاں ہیں وہاں پر
جہاں میں تو جہاں پر بھی کھڑا ہے

0
2
اپنوں نے اغیاروں نے
درد دیے ہیں ساروں نے
زندگی کا حاصل سمجھا
نالائق گنواروں نے
سب کس طرح سے جیتے ہیں
مُجھ کو سکھایا تاروں نے

0
2
تمہارے مد بھرے نغمے کا ہے غم
زمانے سے ملے صدمے کا ہے غم
نہیں سنتا دلِ زار اب میری
لگا جو ہے کسی اپنے کا ہے غم
سدا رسوائیوں سے بھرا دامن
فخر ہوتا تمہیں ایسے کا ہے غم

0
3
بھلا میں رو نہیں سکتا
یہ آنسو دھو نہیں سکتا
وہ کرنا چاہتے ہو کیوں
جو تم سے ہو نہیں سکتا
جسے تم پا نہیں سکتے
وہ تم سے کھو نہیں سکتا

0
3
جانتے ہیں ہم تُجھ کو کہتے ہیں ہم کب کہتے ہیں لوگ
اس اداسی میری محبت کو اعجب کہتے ہیں لوگ
مسکرا کر ہم پھرنے والوں کو تم خوش نا جاننا
جام دیکھو خالی ہے لیکن لبالب کہتے ہیں لوگ
بھول جاتا ہوں بارہا یادِ ماضی ہاں تیری یاد
یاد تو آ جاتا ہے تب بے وفا جب کہتے ہیں لوگ

0
2
سینے میں اب میرے دل بھی نہیں ہے
اور تیرے رخ پر آنچل بھی نہیں ہے
نظروں سے کیا ہے تو نے قتل مرا
اور ایسا ہے تو قاتل بھی نہیں ہے
اُس مسئلے کا حل مجھ کو ڈھونڈنا ہے
جس مسئلے کا کوئی حل بھی نہیں ہے

0
2
میری اور ان کی بات ہو گئی ہے
جیتا تو ہوں پر مات ہو گئی ہے
جب اُس نے کھولیں صبح اپنی زلفیں
دن دھارے پوری رات ہو گئی ہے
میری محبت میں ہے جو عقیدت
اُس سے فنا یہ ذات ہو گئی ہے

0
3
اب ہجر کو اپنانا پڑ گیا ہے
اور دل کو بھی سمجھانا پڑ گیا ہے
سوچا یہی تھا اب نہ جائیں گے ہم
پر اُس گلی میں جانا پڑ گیا ہے
وہ بات ہی کچھ ایسی کر گیا تھا
اُس بات پہ مر جانا پڑ گیا ہے

0
3
مرض ہو کوئی تو دوا ہوتی ہے
مگر عشق میں بس دعا ہوتی ہے
اُسے دیکھو تو کہتے اُٹھو گے تم
حُسن چیز ناصح کیا ہوتی ہے
کئی سال رہتا ہے مے کا نشا
کبھی آنکھ جو میکدہ ہوتی ہے

0
3
دل لگی گاتے جانا اچھا لگتا ہے
یار کی گلی میں آنا اچھا لگتا ہے
جام پہ جام پیے جانا اچھا لگتا ہے
نظروں کا پیمانہ اچھا لگتا ہے
ایک تو ہی نہیں ہے خوش اس دیوانگی سے
سب کو تیرا دیوانہ اچھا لگتا ہے

0
2
سورج سو چکا چاند نکل آنا چاہئے
میخانہ ساقی اب ترا کھل جانا چاہئے
پھیلائے ہاتھ عشق جو معشوق کے لیے
پڑھ کر نماز سجدے میں مر جانا چاہئے
اب دیکھ بھی لیا اُسے باتیں بھی کر لیں کچھ
اب تمہیں اُس کی گلی سے لوٹ آنا چاہئے

0
2
گزرے کوئی تو گمان ہو جاتا ہے دیوانے کو
یاد وہ آئے تو جی کرتا ہے گھبرانے کو
تم روٹھے تھے اور ہم آے تھے منانے کو
رکھ لوں میں چھپا کر اس عشق کے افسانے کو
مست بناتے ہی نہیں ایسی پلاتے ہو
دل کرتا ہے توڑ دوں ساغر و پیمانے کو

0
2
آپ دعوتِ عام کرتے ہیں
روز گھر سرِ شام کرتے ہیں
نام کرتے ہیں وہ رقیبوں کے
اور ہمارے بھی نام کرتے ہیں
کھیلتے ہیں اور توڑ دیتے ہیں
آپ دل سے یہ کام کرتے ہیں

0
فل الحال تمہارے سر الزام نہیں ہے
تجھ کو بدنامی کے سوا کام نہیں ہے؟
ہے ہجر کی شب وصل کی یہ شام نہیں ہے ؟
پروانے ہیں پر شمع کا کچھ نام نہیں ہے
ہر شخص ہے زندہ تم پر مر جا نے کے بعد
تو کہتا ہے عشق کا انجام نہیں ہے

0
2
دیکھا ہے پاؤں تا جبیں اک اک کرکے
ارمان مٹتے جاتے ہیں اک اک کرکے
کتنا منظم جسم کا ہے ہر فعل
اُرتی ہیں زلفیں آفریں اک اک کرکے
وہ بات بھی پوری نہ کرتا تھا اور میں
ہر بات پر کرتا یقیں اک اک کرکے

0
وہ جب کبھی بھی اپنے گھر سے جاتا ہوگا
اِک شخص گزرتا تمہیں نظر آتا ہوگا
وہ گزرتے راستوں پر جو دیکھ لے تمہیں کبھی
وہ قدم تو بہت آہستہ اُٹھاتا ہوگا
ملو کبھی تو وہ کر دے حوالے تمھارے سب
جیسے ارمان وہ ٹوکری میں لاتا ہوگا

0
1
کرنی ہے گفتگو ہمیں شام کے ساتھ
بس اک بوتل شراب دو جام کے ساتھ
زاہد کی صحبت سے نہ بدلے گا کچھ
دل میں رہے گا خدا کسی رام کے ساتھ
یہ حال ہے گھر کا وصل کے وعدے میں
بے چین ہیں دیوار و در بام کے ساتھ

0
مجھ سے تو نہیں ہے یہ صبح شام کا رنج
میری ذات اور میرے کلام کا رنج
دکھ کیا ہی ہو گا میخانے میں سوا اسکے
ہر کسی کو یہاں صرف جام کا رنج
باتیں کچھ سنو کسی عشق کی بھی زاہدو!
مجنوں لیلیٰ سسی جیسے تمام کا رنج

0
ایک ایسا بھی کام کرنا ہے
اب ترا احترام کرنا ہے
ابھی جانے دو تم خدا کو پھر
ساروں نے رام رام کرنا ہے
اس طرح کا کلام لکھ کر بھی
نیک ناموں میں نام کرنا ہے

0
11
نا ہمیں آزماؤ تم
اس طرح نا ستاؤ تم
کس نے تمہیں منع کیا
محفلوں میں آؤ تم
جانتے ہیں تُجھ کو ہم
نا وفا بتلاؤ تم

0
6
لاکھ وہ کہتے پھریں مجھے اس سے محبت نہیں ہے
اب مجھے اُن سے کوئی شکایت نہیں ہے
روز روز یہ سنتے یونہی میں ایک روز
دیکھنا مر جاؤں گا میری جان
پھر مجھے تم ڈھونڈھتی پھرو گی اور
پھر میں کہاں آؤں گا میری جان

0
9
یہ جو چلتا پھر تا سراب ہے یہ خراب ہے یہ خراب ہے
وہ جو با وفا بے حساب ہے یہ خراب ہےیہ خراب ہے
ہو کوئی گلی یا کوئی جگہ کسی عرش پر کسی آسماں
جو ترا خیالِ عذاب ہے یہ خراب ہے یہ خراب ہے
نہ کسی ادا پہ غرور کر نہ وفا کو اپنے سے دور کر
یہ فضول رسمِ شباب ہے یہ خراب ہے یہ خراب ہے

0
19
یہ قصہِ محبت ہے یا جنگ کی کہانی ہے
ہزاروں مر گئے ہیں اور کس کی جان جانی ہے
یہ تاج و دولتِ دنیا وفا کی راہ میں قربان
ضروری تھی تو دے دی جان بھی یہ جاں تو فانی ہے
یہ باتیں چھوڑ دو یہ باتیں سب کی سب پرانی ہیں
نئے دو شعر کہنے ہیں نئی غزل سنانی ہے

0
6
اور یوں ہوا کہ یار مرا یار ہو گیا
وہ بے وفا تھا اور وفادار ہو گیا
زخمی ہوئے ہیں ہم تو دکھائی ہے کیا ادا
جو مر گئے ہیں ہم تو وہ تلوار ہو گیا
تم کیوں پڑے ہو پتھروں اب میری راہ میں
وہ بت بھی لگتا حاصلِ کردار ہو گیا

0
8
گناہوں کی کھڑی دیوار ہے یا رب
ہمیں تیری نظر درکار ہے یا رب
خُدا کا نام لے لے کر کرم کی سب دہائی دو
غموں کے جال میں اِس پھسنے والے کو رہائی دو
گناہوں سے یہ دل دو چار ہے یا رب
ہمیں تیری نظر درکار ہے یا رب

0
31
عید پر دیدار ہو یہ ضروری تو نہیں
دل کا بھی اقرار ہو یہ ضروری تو نہیں
گزرے تھے ماضی میں کچھ اس جگہ منظر عجیب
سب وہی ہر بار ہو یہ ضروری تو نہیں
اب سبھی ارمان میں سامنے رکھ دوں ترے
اس طرح اظہار ہو یہ ضروری تو نہیں

20