جانتے ہیں ہم تُجھ کو کہتے ہیں ہم کب کہتے ہیں لوگ
اس اداسی میری محبت کو اعجب کہتے ہیں لوگ
مسکرا کر ہم پھرنے والوں کو تم خوش نا جاننا
جام دیکھو خالی ہے لیکن لبالب کہتے ہیں لوگ
بھول جاتا ہوں بارہا یادِ ماضی ہاں تیری یاد
یاد تو آ جاتا ہے تب بے وفا جب کہتے ہیں لوگ
تو نمازیں پڑھتا جا اور دل میں رکھ لے نیت خراب
کونسا میں بھی نیک ہوں شیخ صاحب کہتے ہیں لوگ
شب کو جلنے پروانے ہیں موت ہونی دیوانوں کی
لوگوں کو کیا معلوم دن ڈھلنے کو شب کہتے ہیں لوگ
اِس محبت کو دیکھ کر اس عقیدت کو دیکھ کر
جانتے ہیں عاشق مُجھے عشق مذہب کہتے ہیں لوگ
جو بھی تعریفیں کر رہے ہیں وہ سب احمدؔ جھوٹے ہیں
مر گیا ہوں اس واسطے اب اچھا سب کہتے ہیں لوگ

0
2