سینے میں اب میرے دل بھی نہیں ہے
اور تیرے رخ پر آنچل بھی نہیں ہے
نظروں سے کیا ہے تو نے قتل مرا
اور ایسا ہے تو قاتل بھی نہیں ہے
اُس مسئلے کا حل مجھ کو ڈھونڈنا ہے
جس مسئلے کا کوئی حل بھی نہیں ہے
یہ بارشیں تو دھوپ میں بھی ہو رہی ہیں
گھٹا نہیں کوئی بادل بھی نہیں ہے
وہ حُسن کیا جو دِکھ جائے کسی کو
وہ حور کیا جو افضل بھی نہیں ہے
کچھ جل گئے کچھ مر گئے مرنے والے
تو ہے جو ابھی تک گھائل بھی نہیں ہے
توبہ کر کے نقصان اُٹھا رہے ہو
اب ہاتھ میں دیکھو بوتل بھی نہیں ہے
کچھ تو ہے عجب جو سامنے اب نہیں تو
لیکن آنکھوں سے اوجھل بھی نہیں ہے
اب کیا ہے مجھے کام تمہارے در سے
اب تیرے در پر محفل بھی نہیں ہے
میخانے میں ہے دور تک سناٹا
اب تو ساغر میں ہلچل بھی نہیں ہے
نا فائدہ کوئی اب وفا کرنے میں
راہِ وفا میں اب منزل بھی نہیں ہے
کیا پوچھنے آے ہو کہے کیسے کچھ
وہ بول سکے اس قابل بھی نہیں ہے
اب نا خدا کیا کرے کسی مسئلے میں
غرقاب ہے کشتی ساحل بھی نہیں ہے
تیری قامت پر جو مر جاتا تھا
پہلو میں ہے وہ بسمل بھی نہیں ہے
یہ کیسا دشت ہے کہ جس میں نہیں خاک
کیسا چمن کہ جس میں گل بھی نہیں ہے
دیکھوں گر میں زندگی کا ہر پہلو
اس زندگی کا کچھ حاصل بھی نہیں ہے
سب ہونٹوں کے کرم سے مد ہوش ہوئے
آنکھوں کی گلابی شامل بھی نہیں ہے
تیاری کہاں مہندی نہیں ہاتھوں میں
دیکھو آنکھوں میں کاجل بھی نہیں ہے
انسان ہوں ہاں خطا کھا سکتا ہوں میں
احمدؔ کوئی ذاتِ کامل بھی نہیں ہے

0
2