فل الحال تمہارے سر الزام نہیں ہے
تجھ کو بدنامی کے سوا کام نہیں ہے؟
ہے ہجر کی شب وصل کی یہ شام نہیں ہے ؟
پروانے ہیں پر شمع کا کچھ نام نہیں ہے
ہر شخص ہے زندہ تم پر مر جا نے کے بعد
تو کہتا ہے عشق کا انجام نہیں ہے
اب ہم یہاں پر ڈھونڈتے ہیں چاندنی راتیں
اب محفلیں یہ جام کی تو عام نہیں ہے
وعدہ تو کسی شام کا تھا تم ابھی احمدؔ
بیٹھے رہو کے رات ہے یہ شام نہیں ہے۔

0
2