یہ کششِ حُسنِ بتاں تم نا سمجھو گے
عشق کے یہ سود و زیاں تم نا سمجھو گے
ہے نہیں نام و نشاں نا مثل کوئی ہے یہاں
کس پہ فریفتہ ہے جہاں تم نا سمجھو گے
یہ انگڑائیاں زلفوں کی کر رہی حال بیاں
پر وہ رات کو تھے کہاں تم نا سمجھو گے
بزم حسینوں کی ناز و نکھرا بھی ان کا
آدمی کیوں کم تر یہاں تم نا سمجھو گے
وصل کی شب ہے اب کاہے کی کرنی دیر
یہ ہو چلی ابھی آذاں تم نا سمجھو گے
اقرارِ وفا اُس کا تم نے نہیں سننا
بولے کوئی بھی وہ زباں تم نا سمجھو گے
سنتے ہی یقیں جھوٹ پہ کر لیتا ہوں میں
لہجہ ہے شعلہ بیاں تم نا سمجھو گے
پینا شراب تو ہے معمول کی بات مگر
کہنے کو صاحبِ قرآں تم نا سمجھو گے
آئنوں میں نظر آنے والے کوئی اور ہیں
آئنوں میں ہیں کئی جہاں تم نا سمجھو گے
دل سے تلاش کر احمدؔ ورنہ نہیں ملے گا
ہے وہ مکاں یا لامکاں تم نا سمجھو گے

0
3