اور یوں ہوا کہ یار مرا یار ہو گیا
وہ بے وفا تھا اور وفادار ہو گیا
زخمی ہوئے ہیں ہم تو دکھائی ہے کیا ادا
جو مر گئے ہیں ہم تو وہ تلوار ہو گیا
تم کیوں پڑے ہو پتھروں اب میری راہ میں
وہ بت بھی لگتا حاصلِ کردار ہو گیا
ایسا بھی کیا یہ کہنا کہ اب کچھ نہیں رہا
جو کچھ بھی تھا وہ عشق میں بے کار ہو گیا
کیسی شراب تھی وہ ترے سرخ گال پر
جو چومتے ہی چومتے مے خوار ہو گیا
اب نا اُٹھیں گے یار ترے آستاں سے ہم
اب آستاں ترا یہ مری دار ہو گیا
جب سے ہوا ہے تو مرا ہم راز میرے یار
میرا ہر ایک راز مرا، زار ہو گیا
آیا تھا جب شباب تری زیست کا اے جان
اُس وقت یہ جہان طرف دار ہو گیا
زار و قطار روتا تھا جو میرے سامنے
احمدؔ وہ شخص اب کہ تو ہشیار ہو گیا

0
8