| ذرا بھر ڈر رہی ہو جس کسی آہوں سے اے جاناں |
| سنائی دے رہی زخمی کے یہ زخموں سے اے جاناں |
| کیا کر یونہی شکوے تو نہ دل میں رکھ کوئی بھی بات |
| محبت بڑھتی جائے گی ترے شکوؤں سے اے جاناں |
| ترے لفظوں میں تاثیرِ دوا ہے پھونک دے ظالم |
| بچا لو مرنے والے اپنے کو باتوں سے اے جاناں |
| رکھو زندہ نہ مُجھ کو ڈال دو آگے ستم گر کے |
| جو کرنا چاہتی ہیں قتل یہ آنکھوں سے اے جاناں |
| رہے آباد تیرے اس چمن پر نا خزاں آوے |
| شفا پائی بہت سو نے کئی پھولوں سے اے جاناں |
| تُجھے رب نے بنایا خاص سو رکھ اس عطا کا پاس |
| بتا دے تو ترا کیا ناتا ہے عاموں سے اے جاناں |
| تو احمدؔ مسکرا اُس بے وفا کے وَعْدَۂِ شَب پر |
| وفا کیا ہے ذرا دیکھو وفا داروں سے اے جاناں |
معلومات