نا ہمیں آزماؤ تم
اس طرح نا ستاؤ تم
کس نے تمہیں منع کیا
محفلوں میں آؤ تم
جانتے ہیں تُجھ کو ہم
نا وفا بتلاؤ تم
کس طرح سے جاتے ہیں
روشنی کو سمجھاؤ تم
سنگ ہوں انساں نہی
دو بہت سے گھاؤ تم
ہے سدا سے رستہ یہ
اِس پہ آؤ جاؤ تم
خود قفس میں آئیں گے
بال تو پھیلاؤ تم
شرطیں سب مُجھ کو قبول
سب کی سب لکھواؤ تم
اپنا ہوں دشمن نہیں
اب نہ بازو جھٹکاؤ تم
کرنا ہے تو کردو قتل
دل کو نا بہلاؤ تم
پانی جھٹکو زلف سے
میکدے کھلواؤ تم
یہ ضروری ہے بہت
زخم اک لگواؤ تم
گھٹ رہا احمدؔ کا دم
زلفیں نا الجھاؤ تم

0
6