یہ قصہِ محبت ہے یا جنگ کی کہانی ہے
ہزاروں مر گئے ہیں اور کس کی جان جانی ہے
یہ تاج و دولتِ دنیا وفا کی راہ میں قربان
ضروری تھی تو دے دی جان بھی یہ جاں تو فانی ہے
یہ باتیں چھوڑ دو یہ باتیں سب کی سب پرانی ہیں
نئے دو شعر کہنے ہیں نئی غزل سنانی ہے
یہ جو بہار کی رُت میں خزاں کی ہے جھلک سی ایک
یہ مسئلہ نہیں ہے روٹھ جانے کی نشانی ہے
ذرا سا منزلوں کو جانے والوں راستے دیکھو
یہ منزلیں تمہیں لگتا ہے راستے پر آنی ہے
کیا کروں شکایت اُس کو زندگی کی اب احمد
کہ جیسی بھی ملی ہے اب تو زندگی نبھانی ہے

0
6