اب ہجر کو اپنانا پڑ گیا ہے
اور دل کو بھی سمجھانا پڑ گیا ہے
سوچا یہی تھا اب نہ جائیں گے ہم
پر اُس گلی میں جانا پڑ گیا ہے
وہ بات ہی کچھ ایسی کر گیا تھا
اُس بات پہ مر جانا پڑ گیا ہے
ہم جا رہے تھے راہ میں حرم کی
دو گام پہ بت خانہ پڑ گیا ہے
حالات ہی ایسے ہیں وصل کی رات
منہ پھیر کہ سو جانا پڑ گیا ہے
کیوں کر دیا منع اُس نے ملنے سے آج
کیوں اُس کو مکر جانا پڑ گیا ہے
کر آے ہو احمدؔ جہاں سے ہجرت
اب اُس جگہ ویرانہ پڑ گیا ہے

0
3