| وفا داروں میں دیکھو بس وفا ہے |
| حُسن والوں تمہارے پاس کیا ہے |
| خدا سنتا ہے میری ساری عرضیں |
| وہ جھٹلاتا ہے جو تیرا خدا ہے |
| زمانے بھر کی خوشیاں ہیں وہاں پر |
| جہاں میں تو جہاں پر بھی کھڑا ہے |
| سجایا ہے نگر کو تیری خاطر |
| وگرنہ شہر بھر میں کیا رکھا ہے |
| ستاتے ہو مجھے ہر وقت خود ہی |
| مجھے کہتے ہو پھر خوفِ خدا ہے |
| محبت کے گلے گھٹتے یہاں پر |
| زمانے کی روایت یہ سدا ہے |
| محبت کر لو نا اظہار کرنا |
| مناسب سمجھو تو اِک مشورہ ہے |
| مناتا تھا میں عیدیں تیرے در پر |
| ترے جانے سے پیچھے غم بچا ہے |
| جفا کاروں کو جب جب تھی ضرورت |
| وہ گھبرایا نہیں حاضر ہوا ہے |
| یہ صحرا ہے نہ دریا نا بیاباں |
| جہاں رہتا ہوں میں وہ ہی جگہ ہے |
| لکھا ایسا بھی کیا چُپ ہو گئے تم |
| پڑھو تم حال دل کا تو کھلا ہے |
| کتابوں میں رکھا جو پھول تو نے |
| وہ میری ہی طرح مرجھا گیا ہے |
| بچھڑ کر بھی کبھی نا مل سکے ہم |
| مجھے پھر بھی نہیں کوئی گلہ ہے |
| محبت میں وفا کیوں کی ہے تو نے |
| یہ تیرا جرم یہ تیری سزا ہے |
| ترے یہ تیر گھائل کر رہے کیوں |
| ہاں میری ہی طرف شاید ہوا ہے |
| جہاں پر ہیں غموں کی دفن لاشیں |
| مرے کاشانے کا اتنا پتہ ہے |
| تری نازک نشیلی پیاری آنکھیں |
| سراسر میکدہ ہے میکدہ ہے |
| اُسے آواز دے وہ مر نہ جائے |
| شفا ہوتی ہے لفظوں میں سنا ہے |
| سمندر کے کنارے رہنے والے |
| انہیں رونے میں کچھ تو آسرا ہے |
| زمیں ہو یا فلک یا عرش کوئی |
| جہاں پر تو نہیں کیا فائدہ ہے |
| جہاں آتش جلی تم دیکھتے ہو |
| وہ دل ہے عشق میں تیرے جلا ہے |
| جہاں احمدؔ کھڑا ہوں زندگی میں |
| وہیں سے ابتدا اور انتہا ہے |
| ذرا بھر آئینے میں دیکھو صورت |
| نظر آتا ہے جو چہرہ مرا ہے |
| جتاتے کیوں ہو ہم کو تم محبت |
| ہمیں کر کے بتاتے یہ وفا ہے |
| کبھی تھے جن کے سر کا تاج احمدؔ |
| وہی کہتے بہت ہی وہ بُرا ہے |
معلومات