اپنوں نے اغیاروں نے
درد دیے ہیں ساروں نے
زندگی کا حاصل سمجھا
نالائق گنواروں نے
سب کس طرح سے جیتے ہیں
مُجھ کو سکھایا تاروں نے
یہ انداز کہاں سیکھے
اس دریا نے کناروں نے
جب بھی ضرورت مُجھ کو پڑی
دھوکا دیا ہے سہاروں نے
اپنوں کی نہیں کوئی فکر
سوچ رکھی غداروں نے
ناز نہ کر بیچا ہے حُسن
دو ٹکے کے بازاروں نے
حق مانگ کر غلطی کی
عاشقوں نے غم خواروں نے
کر دیے آنکھوں سے بسمل
لاکھوں پردہ داروں نے
فلسفہ لکھا محبت کا
احمدؔ جیسے ہزاروں نے

0
2