| وہ جب کبھی بھی اپنے گھر سے جاتا ہوگا |
| اِک شخص گزرتا تمہیں نظر آتا ہوگا |
| وہ گزرتے راستوں پر جو دیکھ لے تمہیں کبھی |
| وہ قدم تو بہت آہستہ اُٹھاتا ہوگا |
| ملو کبھی تو وہ کر دے حوالے تمھارے سب |
| جیسے ارمان وہ ٹوکری میں لاتا ہوگا |
| تم روز خیالوں میں آ جاتی ہو اُس کے |
| ہر روز تمہیں وہ جھولا جھولاتا ہوگا |
| خُدا ہی جانے تم کب ملو گی اس سے اب |
| اِسی آرزو میں تصویریں ملاتا ہوگا |
| آذاں ديتا ہے تمہاری ہی مسجد ميں وہ |
| وہیں وہ ہے نماز پڑہتا سر کو جھکاتا ہو گا |
| یہ جام کیا ہوتا ہے اسے معلوم نہیں |
| وہ مے سبھی کو نظروں سے پلاتا ہوگا |
| کیا پوچھتے ہو مجھ سے اِس حسن کی تم باتیں |
| اپنی آغوش میں ساری خدائی سلاتا ہو گا |
| تم بچھڑے تو ایسا صدمہ دے کر کے بچھڑے |
| شبِ ہجر وہ ایسی دھوم سے مناتا ہوگا |
| افسانہ نگار ہے وہ بڑا نام ہے اب اُس کا |
| وہ کسی اخبار پہ اپنا قصہ سناتا ہو گا |
| یہ گلاب تو اب بکتے ہی نہیں ہیں اے ناصح |
| کتنی مشکل سے وہ گھر اپنا چلاتا ہو گا |
| ترے عشق میں کر دی جوانی رائیگاں اس نے تو |
| اب پیری میں وہ تیری یاد بھُلاتا ہو گا |
| کچھ زخم جو کھائے تھے اُس نے ان سے صاحب |
| پیپل کی چھاؤں میں خط سبھی جلاتا ہوگا |
| ہو گئے ناکام ہیں سارے طبیب و چارا گر |
| اب زخم حسینوں کی بستی میں دکھتا ہوگا |
| لو گزر گئے ہیں ہم جب اُس کے غم میں احمدؔ |
| رانجھے وہ سبھی در پر اب اپنے نچاتا ہو گا |
معلومات