| یہ جو چلتا پھر تا سراب ہے یہ خراب ہے یہ خراب ہے |
| وہ جو با وفا بے حساب ہے یہ خراب ہےیہ خراب ہے |
| ہو کوئی گلی یا کوئی جگہ کسی عرش پر کسی آسماں |
| جو ترا خیالِ عذاب ہے یہ خراب ہے یہ خراب ہے |
| نہ کسی ادا پہ غرور کر نہ وفا کو اپنے سے دور کر |
| یہ فضول رسمِ شباب ہے یہ خراب ہے یہ خراب ہے |
| نہ کہیں ہے جام میں اشک اور نہ بزم میں کوئی دور ہے |
| کوئی پینے میں نہ ثواب ہے یہ خراب ہے یہ خراب ہے |
| نہ کرو ضیاع حسن کا تم ذرا رُخ کو اپنے دکھاؤ تو |
| ترے چہرے پر جو حجاب ہے یہ خراب ہے یہ خراب ہے |
| لیے پھول تونے جب اِس چمن سے تھی آرزو یہاں دیکھتے |
| مرے ہاتھ میں بھی گلاب ہے یہ خراب ہے یہ خراب ہے |
| تری آنکھ میں ہے عجیب رنگ نہ ڈر ہے کوئی نہ کوئی سنگ |
| ترے جام میں جو شراب ہے یہ خراب ہے یہ خراب ہے |
| ترا ناز و نخرا کمال کا کوئی پل ہو جیسے وصال کا |
| کُھلی زلفیں جیسے کتاب ہے یہ خراب ہے یہ خراب ہے |
| یہ جفا وفا کی لڑائی میں کہاں بیچ آگئی عاشقی |
| یہی عاشقی کا نصاب ہے یہ خراب ہے یہ خراب ہے |
| سُنو احمدِ بے نشان تم بھلا کیا ہے تیرے کلام میں |
| کسی اِک حسینہ کا باب ہے یہ خراب ہے یہ خراب ہے |
معلومات