لاکھ وہ کہتے پھریں مجھے اس سے محبت نہیں ہے
اب مجھے اُن سے کوئی شکایت نہیں ہے
روز روز یہ سنتے یونہی میں ایک روز
دیکھنا مر جاؤں گا میری جان
پھر مجھے تم ڈھونڈھتی پھرو گی اور
پھر میں کہاں آؤں گا میری جان
خوشیاں ہوجائیں گی سب اُداس زندگی کی میرے بغیر
پل رہے ہیں سانپ آستین میں سپیرے بغیر
ایک فرد بھلا کس طرح دوا بنا بیماروں کی
چارا گر کسی کام نا آئے نا دعا درباروں کی
پھول بیٹھے ہیں باغ میں اُداس
صرف کھلتے ہیں مرجھاتے ہیں
سب ہیں شمع کے آس پاس
جلتے ہیں مر جاتے ہیں
سب کے سب ہیں خسارے میں تیرے بغیر
پل رہے ہیں سانپ آستین میں سپیرے بغیر
تیری راہ پہ سجدے کرنے ہیں دیوانوں نے
اور سلامی شراب سے دینی ہے میخانوں نے
دیکھ کر قد و قامت کو تیرے
لوگ شہرِ خموشاں کے باہر نکل آئیں گے
اور ہو گا احمدؔ عشقِ بتاں کچھ یوں طاری
پھر پیر و جوان سارے یہ کافر نکل آئیں گے
سبھی دل فدا کر رہے ہیں زلفوں سے گھیرے بغیر
پل رہے ہیں سانپ آستین میں سپیرے بغیر

0
9