دل لگی گاتے جانا اچھا لگتا ہے
یار کی گلی میں آنا اچھا لگتا ہے
جام پہ جام پیے جانا اچھا لگتا ہے
نظروں کا پیمانہ اچھا لگتا ہے
ایک تو ہی نہیں ہے خوش اس دیوانگی سے
سب کو تیرا دیوانہ اچھا لگتا ہے
کہہ رہے ہو کہ مزاج ہے اچھا جناب کا کچھ
قاصد پھر سے بتانا اچھا لگتا ہے؟
روز جی اٹھتا ہوں میں تمہیں دیکھتے ہی
روز مجھے مر جانا اچھا لگتا ہے
مسجدیں بھی ہیں اور کلیسا بھی موجود
پر مجھے تو میخانہ اچھا لگتا ہے
تیر لیے پھرتی ہے احمدؔ آنکھ میں وہ
اُس کو خون بہانہ اچھا لگتا ہے

0
2