آپ دعوتِ عام کرتے ہیں
روز گھر سرِ شام کرتے ہیں
نام کرتے ہیں وہ رقیبوں کے
اور ہمارے بھی نام کرتے ہیں
کھیلتے ہیں اور توڑ دیتے ہیں
آپ دل سے یہ کام کرتے ہیں
آپ کو کوئی نا کہے گا کچھ
ہم ہی خود کو بدنام کرتے ہیں
اور کر کے خلوت میں تمہیں یاد
فاصلوں کو تمام کرتے ہیں
تیری محفلوں کے یہ شوخ لوگ
جانے کیا تہِ دام کرتے ہیں
لوگ عشق میں نفع کے لیے
موت گل کا انجام کرتے ہیں
چھوڑو یادیں احمدؔ کہاں ہو گم
آؤ تم دو دو جام کرتے ہیں

0