سورج سو چکا چاند نکل آنا چاہئے
میخانہ ساقی اب ترا کھل جانا چاہئے
پھیلائے ہاتھ عشق جو معشوق کے لیے
پڑھ کر نماز سجدے میں مر جانا چاہئے
اب دیکھ بھی لیا اُسے باتیں بھی کر لیں کچھ
اب تمہیں اُس کی گلی سے لوٹ آنا چاہئے
دل و جاں نے دل و جاں سے منہ پھیر کر کہا
تمہیں شبِ وصال میں سو جانا چاہئے
ہر رنگ کا ہے جام طرح طرح کی شراب
اب اِس کے گھر کو کہنا تو میخانہ چاہئے
آنکھوں کو ہر گھڑی ہے تری آس اِس طرح
جیسے کہ شمع کو کوئی پروانا چاہئے
احمدؔ یہ عشق وِشق تو سب جھوٹ تھا بے شک
کیا عشق سے ہے کام اُنہیں افسانا چاہئے

0
2