| گزرے کوئی تو گمان ہو جاتا ہے دیوانے کو |
| یاد وہ آئے تو جی کرتا ہے گھبرانے کو |
| تم روٹھے تھے اور ہم آے تھے منانے کو |
| رکھ لوں میں چھپا کر اس عشق کے افسانے کو |
| مست بناتے ہی نہیں ایسی پلاتے ہو |
| دل کرتا ہے توڑ دوں ساغر و پیمانے کو |
| پیتے ہیں قبلہ رُخ ہو کر میرے ساقی |
| بس میں ہو تو بنا لیں کعبہ میخانے کو |
| بادل بیٹھے سنتے ہیں اسکی ساری باتیں |
| باتیں اس کی کافی ہیں بارش برسانے کو |
| یادِ خُدا بھی دل میں بتوں کا نام بھی لب پر |
| ہرجائی نہ کہوں تو کیا کہوں بیگانے کو |
| کتنے آئے تھے بزم میں اور کتنے گئے واپس |
| آگ لگی ہے شمع سے ایک ہی پروانے کو |
| کیوں کر خاک اُرانی ہے ہر دشت کی ناصح |
| ہم نے بنا لیا گھر اپنا اس ویرانے کو |
| کیا ہو گیا ہے جو وہ خفا ہیں تم سے احمدؔ |
| تارے سارے لے اؤ اُن کا جی بہلانے کو |
| بھاگ لیے مسجد سے میخانے کو احمدؔ |
| اب تھک کر جی کرتا ہے قبر میں سو جانے کو |
معلومات