| تمہارے مد بھرے نغمے کا ہے غم |
| زمانے سے ملے صدمے کا ہے غم |
| نہیں سنتا دلِ زار اب میری |
| لگا جو ہے کسی اپنے کا ہے غم |
| سدا رسوائیوں سے بھرا دامن |
| فخر ہوتا تمہیں ایسے کا ہے غم |
| مرے آنسو ہیں دولت عمر بھر کی |
| کماتا ہوں جہاں بچھڑے کا ہے غم |
| وہ رفتہ رفتہ دیتی گئی خوشیاں |
| ہمیشہ کے لیے جانے کا ہے غم |
| شرابوں سے نہیں کوئی بھی شکوہ |
| ہمیں جو کھا گیا عشقے کا ہے غم |
| تری سانسوں کی آوازوں کو سن کر |
| کسی کا دم نکل جانے کا ہے غم |
| لگا سینے سے جب بھی کوئی اغیار |
| نظر آیا جو آئینے کا ہے غم |
| چلا عاشق کے دل پر کوئی خنجر |
| لہو بھی رو رہا بہنے کا ہے غم |
| تمہاری آنکھ میں آنسو ہیں لڑکی |
| مجھے لوٹاؤ مرے حصے کا ہے غم |
| مری تنہائیوں میں ہے کوئی یاد |
| تری ہو يا مری سارے کا ہے غم |
| سنا دے اب سزا کوئی اے قاضی |
| مجھے یہ زندگی جینے کا ہے غم |
| پکاری جب وفا میں ہوا حاضر |
| جھجھک کوئی نہ مر جانے کا ہے غم |
| جنہیں تم جانتے ہو ذرا ہنس مکھ |
| محبت سے اُنہیں آگے کا ہے غم |
| محبت میں کوئی جیتے یہ ہارے |
| کسی صورت نہیں گھٹنے کا ہے غم |
| کسی کو دوش نا دے کسی کو دوش |
| یہ احمدؔ اپنے بیگانے کا ہے غم |
معلومات