Circle Image

عامر خان عامر

@aamirkhanaamir

عامر خان عامر

غزل
کتنا ویران ہوں، انجان ہوں، حیراں ہوں میں
دھوپ سہتا ہوا انسان ہوں، حیراں ہوں میں
لوح محفوظ پہ جلتا ہوا آدم میں ہوں
میں کہ یوسف کا بھی زندان ہوں، حیراں ہوں میں
زندگی مجھ سے پریشاں ہے، مگر میں تو نہیں

2
7
ٹوٹا ہوا خیال بنانا نہیں پڑا
مجبوریوں کا ساتھ نبھانا نہیں پڑا
یہ حادثہ بھی درد کے زمرے میں آ گیا
ہم کو تمہارے سامنے آنا نہیں پڑا
چہرے پہ اپنے رنگ دکھانے پڑے نہیں
قصہ کوئی بھی دل کو سنانا نہیں پڑا

0
12
جہانِ شوق میں ہر لمحہ انقلاب بھی ہے
کہ ہر نفس میں بسا عشق کا سراب بھی ہے
نسیمِ صبح جو لائی پیامِ یارِ ازل
دلِ حزیں کے لئے بادہ و شراب بھی ہے
وفا کے دشت میں اب تک ہے جستجو باقی
یہ آہ و درد کی ہر گونہ اک کتاب بھی ہے

5
پہاڑ گونجیں تو بات ہو کچھ، کہ وحشتوں کی بھی مات ہو کچھ
یا درد سہنے کا وقت آئے، تو زندگی میں نجات ہو کچھ
خزاں کی رت میں بہار ڈھونڈیں، جو گزرے لمحوں کی یاد چھیڑیں
محبتوں کا سراغ ڈھونڈیں، کبھی تو دل میں حیات ہو کچھ
وہ زرد چہرہ، اداس آنکھیں، وہ خواب ٹوٹے، وہ بات جھوٹی
جو دل کے زخموں کو پھر سے بھر دے، سکون بخشے وہ رات ہو کچھ

0
1
محبتوں کا جہاں پھر سے آشکار ہوا
خیالِ یار سے لمحہ بھی بے قرار ہوا
ہوا کے دوش پہ خوشبو کو ایک راز ملا
کہ جیسے خواب کوئی جاوداں دیار ہوا
سکوتِ شب میں چھپا تھا سخن ہمارا جو
چراغِ دل سے یہ آتش فروغِ نار ہوا

0
4
جنوں تو جا چکا لیکن، نشاں اپنا تھا رستے میں
خیال و خواب جلتے تھے، دھواں اپنا تھا رستے میں
وہی شعلے، وہی قصے، وہی آنکھوں کی ویرانی
محبت دفن تھی ان میں، فغاں اپنا تھا رستے میں
سحر ہونے کو ہے لیکن، یہ دل مانے کہاں اس کو
اندھیروں کے تسلسل میں، جہاں اپنا تھا رستے میں

0
9
منتظر ہوں کہ ہواؤں سے کوئی بات بنے
دل کا موسم کبھی بارش کبھی برسات بنے
رات گہری ہو تو چندا کی طرح آ جائیں
وہ جو بچھڑے تھے کبھی، پھر سے ملاقات بنے

0
7
چاندنی رات میں سورج کو بلا کر جی لیں
خواب پلکوں پہ کوئی رنگ سجا کر جی لیں
اشک اپنے تو کبھی درد سے آزاد رہیں
بس کہ آئینہ بھی ہم خود سے جدا کر جی لیں
جانے کس موڑ پہ ہم ہار گئے تھے خود کو
یاد ماضی کو دوبارہ سے بلا کر جی لیں

0
8
آدم کے دل میں رسمِ عبادت نہیں ہے اب
اندھے ہیں روپ سارے بصارت نہیں ہے اب
دھرتی پہ ڈھونڈتے ہیں کہ ہمزاد ہے کہاں
چہرے ہیں ایک جیسے شباہت نہیں ہے اب
سجدے غبارِ راہ ، سفر میں سکوں کہاں
پاؤں میں ایک چکر، فراغت نہیں ہے اب

0
6
ہجراں کے تماشے میں گزر جاتی ہیں راتیں
آنکھوں میں اترتی ہیں، بکھر جاتی ہیں راتیں
یادوں کی رفاقت سے چراغاں ہے دلوں میں
سجتی ہیں، سنورتی ہیں، نکھر جاتی ہیں راتیں
ہر شام جو ڈھلتی ہے دعاؤں کے اثر میں
خاموشی کے پردے میں سنور جاتی ہیں راتیں

0
4
یہ نظر کا شباب لگتا ہے
آپ کو کیا حساب لگتا ہے
آپ کے طنز میں بھی نرمی ہے
زخم بھی کچھ گلاب لگتا ہے
دل تو کہتا ہے آپ مانیں گے
پر یہ وعدہ سراب لگتا ہے

7
جو مرے عشق کی کمائی تھی
زندگی, تجھ پہ ہی لٹائی تھی
دل کا موسم گلاب جیسا تھا
پھر خزاں کیسے خاک لائی تھی
گھر جلایا تھا اس کی خواہش میں
آگ دریا میں کب بہائی تھی

4
کس طرح نغموں پہ کوئی ساز لائیں قمریاں
چشم تر کو پھیر دو، رہنے نہ پائیں قمریاں
کھو گیا سایہ بھی آخر گردشِ ایّام میں
دھوپ کے صحرا میں کب تک گیت گائیں قمریاں
بے زبانی کی لکیریں ہیں نظر کی خامشی
یاد کا دامن نہ چھوٹے، سر جھکائیں قمریاں

9