Circle Image

عامر خان عامر

@aamirkhanaamir

عامر خان عامر

خاک کا خواب ہے، مٹی کا نظارہ دل ہے
وہی آشفتہ‌ سرِ باد، سہارا دل ہے
نور تھا، سایۂ دیوار میں گم کر بیٹھا
ایک ٹھوکر میں پڑا دیدہ و تارا دل ہے
چشمِ بینا نے تجھے خاک سے بالا دیکھا
عقل کہتی ہے مگر بوجھ کا مارا دل ہے

0
6
یہ دنیا خرابوں کی صورت سراسر
یہ خواہش کے دلدل، یہ ظلمت کے منظر
یہاں عقل زنجیر میں قید ہے، اور
یہاں دل کو حاصل نہیں کوئی محور
خرد رہ گئی ہے اسیرِ تکلّف
جُنوں بن گیا ہے اسیری کا جوہر

0
3
غزل
یہ کیسا دور ہے، کیسا نظام رکھا ہے؟
جہاں پہ ظلم کو حق کا پیام رکھا ہے
لہو کی بوند بھی بکتی ہے کوڑیوں کے عوض
ضمیر بیچ کے دنیا میں نام رکھا ہے
یہاں پہ بھوک ہے، غربت کی دھول اڑتی ہے

0
4
حرفِ دل کہنے چلے تھے، لب پہ آہیں جم گئیں
یاد کی سرگوشیاں تھیں، اور باتیں تھم گئیں

0
4
کچھ دھوپ نے شجر کو اشارہ نہیں کیا
اور وقت نے بھی کھیل دوبارہ نہیں کیا
کچھ خواب منتظر تھے کسی نیند کے مگر
آنکھوں نے رات بھر یہ گوارہ نہیں کیا
ہم نے بھی شورِ دریا، بڑے شوق سے سنا
لہروں نے بے بسی سے کنارہ نہیں کیا

0
16
اندھیروں میں گھرا رہبر نئی کوئی صدا مانگے
کوئی شامِ الم ڈھل کر سحر کی ابتدا مانگے
طلب کا ہے یہ عالم، ہر نفس اپنی دُعا مانگے
چراغِ دل جلا کے، شب نئی کوئی ضیا مانگے
یہاں ہر گام ُُ پرچھائی ٗٗ ہے مایوسی کی رستے پر
کوئی حرفِ یقیں لکھ دے، نیا نقشِ وفا مانگے

0
9
یہ اشک کیسے چراغوں میں ضم کیا جائے؟؟
حرم کے سامنے کوئی صنم کیا جائے ؟؟؟
عدم کی راہ میں یاں ہمسفر نہیں کوئی
غبارِ راہ کو ہی ہم قدم کیا جائے
چراغِ خواب کا جلنا ہے معجزہ شاید
یہ تیرگی کا سفر محترم کیا جائے

0
6
غزل
ہر سانس میں شامل تھا کوئی درد وفا سا
ملتا تھا مقدر سے کوئی رنج نیا سا
چہرے پہ نمایاں تھے کئی زخم پرانے
رہتا تھا وہ لب پہ تبسم کی ادا سا
بکھرے ہوئے لمحوں میں کہیں رات پڑی تھی

0
6
عدم سے پردہ ہٹے گا تو نور نکلے گا
وجود خاک سے پھر اک ظہور نکلے گا
یہ آسمان کا نیلا سکوت بولے گا
زمیں کے دشت سے کوئی تو طور نکلے گا
خموشیاں بھی سنائیں گی قصۂ وحدت
کہ اک نگاہ سے معنی ضرور نکلے گا

0
3
یہ سمندر، یہ کنارا، یہ سمٹتے منظر
ایک پل خواب کی صورت میں بکھرتے منظر
دل کی گہرائی میں جو آگ بھڑکتی ہے کہیں
ان کی تصویر ہیں شاید یہ سلگتے منظر
رات خاموش تھی لیکن یہ ہوا بول اٹھی
کچھ کہانی تھے زمیں کی یہ سسکتے منظر

0
5
کون اب منصف بنا ہے، تیرگی اب کیا کہیں؟
ہر صدا زنجیر میں ہے، بیکسی اب کیا کہیں؟
روشنی کا خون کر کے کہہ رہے ہیں اہلِ فن
قاتلوں کا قد بڑا ہے، بے بسی اب کیا کہیں؟
اہلِ دانش سر جھکائے، بے ضمیری معتبر
زیست کا ہر پل نیا ہے، بے خودی اب کیا کہیں؟

0
4
غزل
ہوتا ہے کبھی ایسا ، مُقدر نہ ہوا ہو
اک درد کا چرچا بھی مکرر نہ ہوا ہو
رہتا تھا ہمیشہ یہ گماں، ہار گئے ہم
جیتا تھا وہی بازی جو میسر نہ ہوا ہو
پانی کے بہاو پہ کھڑے خواب ہوں سارے

0
3
غزل
کتنا ویران ہوں، انجان ہوں، حیراں ہوں میں
دھوپ سہتا ہوا انسان ہوں، حیراں ہوں میں
لوح محفوظ پہ جلتا ہوا آدم میں ہوں
میں کہ یوسف کا بھی زندان ہوں، حیراں ہوں میں
زندگی مجھ سے پریشاں ہے، مگر میں تو نہیں

3
12
یہ دریا آنسو، تنہائی، سب بیچ دیے بازاروں میں
ہم خواب بھی اپنے چُن آئے کِن وحشت کی دیواروں میں
ہم اہل وفا مجبور رہے، ہر دور کے اپنے غم نکلے
کیوں مدت تک خاموش رہے پھر بھیگ گئے اظہاروں میں
دنیا کے تماشے کیا دیکھیں، ہر لمحہ بکے ایمان یہاں
سب نام و نسب نیلام ہوئے، بےمول کئی درباروں میں

0
5
ٹوٹا ہوا خیال بنانا نہیں پڑا
مجبوریوں کا ساتھ نبھانا نہیں پڑا
یہ حادثہ بھی درد کے زمرے میں آ گیا
ہم کو تمہارے سامنے آنا نہیں پڑا
چہرے پہ اپنے رنگ دکھانے پڑے نہیں
قصہ کوئی بھی دل کو سنانا نہیں پڑا

0
15
جہانِ شوق میں ہر لمحہ انقلاب بھی ہے
کہ ہر نفس میں بسا عشق کا سراب بھی ہے
نسیمِ صبح جو لائی پیامِ یارِ ازل
دلِ حزیں کے لئے بادہ و شراب بھی ہے
وفا کے دشت میں اب تک ہے جستجو باقی
یہ آہ و درد کی ہر گونہ اک کتاب بھی ہے

7
پہاڑ گونجیں تو بات ہو کچھ، کہ وحشتوں کی بھی مات ہو کچھ
یا درد سہنے کا وقت آئے، تو زندگی میں نجات ہو کچھ
خزاں کی رت میں بہار ڈھونڈیں، جو گزرے لمحوں کی یاد چھیڑیں
محبتوں کا سراغ ڈھونڈیں، کبھی تو دل میں حیات ہو کچھ
وہ زرد چہرہ، اداس آنکھیں، وہ خواب ٹوٹے، وہ بات جھوٹی
جو دل کے زخموں کو پھر سے بھر دے، سکون بخشے وہ رات ہو کچھ

0
1
محبتوں کا جہاں پھر سے آشکار ہوا
خیالِ یار سے لمحہ بھی بے قرار ہوا
ہوا کے دوش پہ خوشبو کو ایک راز ملا
کہ جیسے خواب کوئی جاوداں دیار ہوا
سکوتِ شب میں چھپا تھا سخن ہمارا جو
چراغِ دل سے یہ آتش فروغِ نار ہوا

0
4
جنوں تو جا چکا لیکن، نشاں اپنا تھا رستے میں
خیال و خواب جلتے تھے، دھواں اپنا تھا رستے میں
وہی شعلے، وہی قصے، وہی آنکھوں کی ویرانی
محبت دفن تھی ان میں، فغاں اپنا تھا رستے میں
سحر ہونے کو ہے لیکن، یہ دل مانے کہاں اس کو
اندھیروں کے تسلسل میں، جہاں اپنا تھا رستے میں

0
9
منتظر ہوں کہ ہواؤں سے کوئی بات بنے
دل کا موسم کبھی بارش کبھی برسات بنے
رات گہری ہو تو چندا کی طرح آ جائیں
وہ جو بچھڑے تھے کبھی، پھر سے ملاقات بنے

0
7
چاندنی رات میں سورج کو بلا کر جی لیں
خواب پلکوں پہ کوئی رنگ سجا کر جی لیں
اشک اپنے تو کبھی درد سے آزاد رہیں
بس کہ آئینہ بھی ہم خود سے جدا کر جی لیں
جانے کس موڑ پہ ہم ہار گئے تھے خود کو
یاد ماضی کو دوبارہ سے بلا کر جی لیں

0
8
آدم کے دل میں رسمِ عبادت نہیں ہے اب
اندھے ہیں روپ سارے بصارت نہیں ہے اب
دھرتی پہ ڈھونڈتے ہیں کہ ہمزاد ہے کہاں
چہرے ہیں ایک جیسے شباہت نہیں ہے اب
سجدے غبارِ راہ ، سفر میں سکوں کہاں
پاؤں میں ایک چکر، فراغت نہیں ہے اب

0
6
ہجراں کے تماشے میں گزر جاتی ہیں راتیں
آنکھوں میں اترتی ہیں، بکھر جاتی ہیں راتیں
یادوں کی رفاقت سے چراغاں ہے دلوں میں
سجتی ہیں، سنورتی ہیں، نکھر جاتی ہیں راتیں
ہر شام جو ڈھلتی ہے دعاؤں کے اثر میں
خاموشی کے پردے میں سنور جاتی ہیں راتیں

0
5
یہ نظر کا شباب لگتا ہے
آپ کو کیا حساب لگتا ہے
آپ کے طنز میں بھی نرمی ہے
زخم بھی کچھ گلاب لگتا ہے
دل تو کہتا ہے آپ مانیں گے
پر یہ وعدہ سراب لگتا ہے

7
جو مرے عشق کی کمائی تھی
زندگی, تجھ پہ ہی لٹائی تھی
دل کا موسم گلاب جیسا تھا
پھر خزاں کیسے خاک لائی تھی
گھر جلایا تھا اس کی خواہش میں
آگ دریا میں کب بہائی تھی

7
کس طرح نغموں پہ کوئی ساز لائیں قمریاں
چشم تر کو پھیر دو، رہنے نہ پائیں قمریاں
کھو گیا سایہ بھی آخر گردشِ ایّام میں
دھوپ کے صحرا میں کب تک گیت گائیں قمریاں
بے زبانی کی لکیریں ہیں نظر کی خامشی
یاد کا دامن نہ چھوٹے، سر جھکائیں قمریاں

10