سانس چلتی ہے تو اک ضد سی لگی رہتی ہے
ہر حقیقت کہ پسِ پردہ دبی رہتی ہے
یاد کی راکھ میں جلتا ہے بدن خواہش کا
زندگی خواب کے پردے میں چھپی رہتی ہے
ہم نے دیکھا ہے یہ دنیا بھی تماشا ہی ہے
خاک پر گرد تھی، گرداب بنی رہتی ہے
عمر بھر دشتِ تمنّا میں بھٹکتے ہیں بشر
آہ لیکن یہ مسافت بھی گھنی رہتی ہے
آس ٹوٹے ہوئے لوگوں کی طرح ٹوٹ گئی
سانس سینے میں کوئی زہر بسی رہتی ہے
آج بھی زخم پہ ہنستی ہے زمانے کی ہوا
آج بھی پیاس لبوں پر ہی جمی رہتی ہے
دھوپ میں بیٹھ کے روتے ہیں پرندے عامر
رات تاروں کی گلی میں بھی نمی رہتی ہے

9