غزل |
ہوتا ہے کبھی ایسا ، مُقدر نہ ہوا ہو |
اک درد کا چرچا بھی مکرر نہ ہوا ہو |
رہتا تھا ہمیشہ یہ گماں، ہار گئے ہم |
جیتا تھا وہی بازی جو میسر نہ ہوا ہو |
پانی کے بہاو پہ کھڑے خواب ہوں سارے |
لہروں کا تسلسل کبھی بہتر نہ ہوا ہو |
دل زخم لیے چپ تھا مگر یہ بھی گماں ہے |
شاید کوئی مرہم ہی میسر نہ ہوا ہو |
آنسو کی لکیریں بھی مچلتی رہیں عامر |
جیسے کبھی دریا سے سمندر نہ ہوا ہو |
معلومات