خاک کا خواب ہے، مٹی کا نظارہ دل ہے |
وہی آشفتہ سرِ باد، سہارا دل ہے |
نور تھا، سایۂ دیوار میں گم کر بیٹھا |
ایک ٹھوکر میں پڑا دیدہ و تارا دل ہے |
چشمِ بینا نے تجھے خاک سے بالا دیکھا |
عقل کہتی ہے مگر بوجھ کا مارا دل ہے |
خانۂ آدم و عالم کی حقیقت دیکھو |
نفس آوارہ ہے، اور نقشِ ستارا دل ہے |
جل اٹھا خاک میں، پھر خاک میں مدفون ہوا |
بس کہ اس گردِ جہاں کا ہی شرارہ دل ہے |
کون رکھتا ہے خبر گردشِ دوراں کی مگر |
صبح ملبوسِ سحر، شام بھی سارا دل ہے |
کوئی در کھل نہ سکا فہم کے زخموں کے سوا |
جس کو سمجھا تھا جُنوں، عقل کا مارا دل ہے |
خاک کا ذرہ ہے پر وسعتِ افلاک طلب |
زندگی لمحہ ہے، صدیوں کا خسارا دل ہے |
حسن فطرت ہو کہ تہذیب کی الجھن عامر |
درسِ وحشت ہے، تماشا ہے کہ پیارا دل ہے |
معلومات