جنوں تو جا چکا لیکن، نشاں اپنا تھا رستے میں |
خیال و خواب جلتے تھے، دھواں اپنا تھا رستے میں |
وہی شعلے، وہی قصے، وہی آنکھوں کی ویرانی |
محبت دفن تھی ان میں، فغاں اپنا تھا رستے میں |
سحر ہونے کو ہے لیکن، یہ دل مانے کہاں اس کو |
اندھیروں کے تسلسل میں، جہاں اپنا تھا رستے میں |
چراغوں کا سفر دیکھا، ستاروں سا سماں پایا |
مگر یہ دل بتاتا ہے، نشاں اپنا تھا رستے میں |
ہواؤں نے اڑا ڈالا جو بادل کا مقدر تھا |
جلی تھیں حسرتیں کتنی، گماں اپنا تھا رستے میں |
بچھڑ کر وہ گئے، لیکن فضا میں ان کی خوشبو تھی |
کوئی وعدہ، کوئی پیماں کہاں اپنا تھا رستے میں |
کہ اپنے آپ سے آگے نکل جانے کی ضد میں ہم |
یہ سوچیں کیا، جو ٹوٹا ہے، مکاں اپنا تھا رستے میں |
مسافت ختم تھی لیکن ، یہ دل عامر نہیں مانا |
مسلسل چلتے رہنا تھا، گماں اپنا تھا رستے میں |
معلومات