کون اب منصف بنا ہے، تیرگی اب کیا کہیں؟
ہر صدا زنجیر میں ہے، بیکسی اب کیا کہیں؟
روشنی کا خون کر کے کہہ رہے ہیں اہلِ فن
قاتلوں کا قد بڑا ہے، بے بسی اب کیا کہیں؟
اہلِ دانش سر جھکائے، بے ضمیری معتبر
زیست کا ہر پل نیا ہے، بے خودی اب کیا کہیں؟
کوئے قاتل میں لگی ہے اک دکاں انصاف کی
عدل کی صورت دھواں ہے، روشنی اب کیا کہیں؟
تاج والوں کی رِدا پر خون کے ہیں سب نشاں
سر کٹا ہے، دل لٹا ہے، خامشی اب کیا کہیں؟
علم بیچا، خواب بیچے ،بیچ ڈالا حرف حق
ہر صدا نیلام ٹھہری، زندگی اب کیا کہیں

0
4