چاندنی رات میں سورج کو بلا کر جی لیں |
خواب پلکوں پہ کوئی رنگ سجا کر جی لیں |
اشک اپنے تو کبھی درد سے آزاد رہیں |
بس کہ آئینہ بھی ہم خود سے جدا کر جی لیں |
جانے کس موڑ پہ ہم ہار گئے تھے خود کو |
یاد ماضی کو دوبارہ سے بلا کر جی لیں |
یہ جو لمحے ہیں انہیں قید میں رہنے کیوں دیں |
اپنی سانسوں کو ہواؤں میں اڑا کر جی لیں |
دل کے صحرا میں کبھی چھاؤں بچھائیں عامر |
دھوپ میں بیٹھ کہ سایہ ہی بنا کر جی لیں |
معلومات