غزل
ہر سانس میں شامل تھا کوئی درد وفا سا
ملتا تھا مقدر سے کوئی رنج نیا سا
چہرے پہ نمایاں تھے کئی زخم پرانے
رہتا تھا وہ لب پہ تبسم کی ادا سا
بکھرے ہوئے لمحوں میں کہیں رات پڑی تھی
جلتا تھا مرے دل میں بھی اک شعلہ بجھا سا
خوابوں کی وہ چلمن پہ لکھا درد کا قصہ
لگتا تھا مگر دور سے تعبیر نما سا
رستوں میں اندھیرے تھے، مسافر کو اکیلا
ہر موڑ پہ دکھتا تھا کوئی سایہ کھڑا سا
احساس کی دہلیز پہ خاموش کھڑا تھا
لگتا تھا مرا درد بھی پتھر کی صدا سا
ماتھے کی لکیروں کے سبھی نقش مٹا کر
جلتی تھیں مری سانسیں تھا کچھ حشر بپا سا
جو چہرے پہ مسکان تو آنکھیں تھیں نم سی
دل میں کوئی طوفان تھا خاموش گھٹا سا
پلکوں پہ جو ٹھہرے نہ کبھی اشک رواں بھی
آہوں میں کہ عامر تھا کوئی زہر بجھا سا
— عامر خان عامر

0
6