کہاں سے جا کے لوٹوں گا کہاں پر روشنی ہوگی
ادھورا خواب آنکھوں میں، ادھوری زندگی ہوگی
یہ کمرہ، یہ کتابیں، یہ ہوا سب کچھ بتا دیں گی
تری آواز، دیواروں میں جب عامر چھپی ہوگی
یہ لمحے بوجھ بن بیٹھے ، یہ سانسیں تھک چکی اپنی
محبت بھی اگر پلٹی ، کہاں دل کی لگی ہوگی

0
1
12
عامر صاحب - یہ مصرع کچھ سمجھ نہیں آیا
وہاں تک جا کے لوٹا ہوں جہاں پر روشنی ہوگی

پہلا حصہ وہاں تک جا کے لوٹا ہوں - ماضی کا جملہ ہے تو اگلا حصہ مستقبل کا کیسے ہو سکتا ہے
یہ اگر ہوتا وہاں تک جا کے لوٹا ہوں جہاں پر روشنی تھی - تب تو یہ گرامر کے حساب سے درست ہوتا -
ورنہ یہ جملہ کیسے درست ہو سکتا ہے اس پہ کچھ روشنی ڈالیں گے ؟
میں اسے سمجھنا چاہ رہا ہوں - شکریہ