کچھ دھوپ نے شجر کو اشارہ نہیں کیا
اور وقت نے بھی کھیل دوبارہ نہیں کیا
کچھ خواب منتظر تھے کسی نیند کے مگر
آنکھوں نے رات بھر یہ گوارہ نہیں کیا
ہم نے بھی شورِ دریا، بڑے شوق سے سنا
لہروں نے بے بسی سے کنارہ نہیں کیا
سچ بولنے کی خو نے دیا درد بے حساب
لب نے کبھی بھی جھوٹ سہارا نہیں کیا
صحرا میں ہم جو بھٹکے تھے عامر تمام عمر
آنکھوں سے اشک باندھ کے چارہ نہیں کیا

0
16